🌅ترکش کا آخری تیر🍢
کہ حلقہ زن ہیں مِرے گرد لشکری اُس کے
فصیل شہر کے ہر برج، ہر مینارے پر
کماں بدست ستادہ ہیں عسکری اُسکے
٢٢اگست ٢٠١٦کو گزرے چار برس ہوگئے ہیں،یہ وہ تاریخ ہے کہ جب ایک نابغہُ روزگار الطاف حسین کو چین کی فرمائش پر ریاستِ پاکستان کے سیاسی اکھاڑے سے بزورِ ریاستی طاقت نکال پھینکا گیا تھا……اس کے بعد سے آج کے دن تلک نا نکالنے والوں کو اور نا ہی الطاف حسین کی قوم کو سکھ کا کوئ دن دیکھنا نصیب ہوا.
ہر گزرتا دن ”الطاف حسین ضروری ہے“کا پہاڑا گنواتا رہا لیکن عاقبت نا اندیش ریاستی فوجی و سیاسی اشرافیہ چین کی محبت میں ڈالروں کی پائل باندھے تھرکتی رہی…..ہر کچھ دن بعد ”جی بھائ جی بھائ“والے کسی نا کسی نوٹنکی کو اس آس پر میدان کارِزار میں اتارا جاتا رہا کہ شائد یہ الطاف حسین کے پھیلائے نظریے حق کا تریاق ثابت ہو اور مہاجر قوم کے دلوں پر نقش نامِ الطاف کھرچ ڈالے،مگر الطاف حسین کی جانِ جگر قوم مجال ہے ٹس سے مس ہوئ ہو……مہاجر قوم کا ہر معاملے پر خاموش رہنا دراصل اشرافیہ کو وہ خاموش پیغام تھا کہ ان کے دل کے راجہ اور مسیحا انہیں سود کے ساتھ لوٹادو اور اپنا کچرا اٹھا لے جائو……مگر ہزیانی کیفیت میں مبتلا اشرافیہ سمجھ تو سب کچھ رہی ہے پھر بھی دلِ ناتواں کی آخری کوشش کے طور پر اپنے تَرکش کا آخری تیر آزمانا چاہتی ہے،گھڑی کی ٹِک ٹِک انہیں وقت کی پھسلن کا اشارہ دے رہی ہے….چناچہ اب کی بار مداری نے اپنے پٹارے کے سارے بندر ایک ساتھ نچانے کے لئے میدان میں لانے کا فیصلہ کیا ہے……
غنیم کا یہ تیرِ نحیف اس کا آخری تیر ہے سو آزما لے، اسے نہی معلوم الطاف حسین کے سارے تیر ابھی محفوظ ہیں😘