میرے خدایا میں مہاجروں کے خواب لکھوں کہ عزاب لکھوں…
وہ حسین چہرے,وہ خواب آنکھیں,و گھنی سایہ دار زلفیں…
قصہُ پارینہ اب ہو چکی ہیں,ظالموں کے ھاتھوں وہ مر چکی ہیں…
آباء ہمارے وہ جنہوں نے چھوڑی تھی زمین اپنی…
اْن کے پسراں یہاں اجنبی ہیں,زمیں ڈھونڈتے ہیں…
کیسا ستم ہے ستمگروں کا,اپنے ہی گھر میں ہم اجنبی ہیں….
میرے خدایا میں مہاجروں کے خواب لکھوں کہ عزاب لکھوں….
وہ شہر کراچی جہاں جاگتی تھیں زندگیاں اب بھاگتی ہیں زندگیاں….
وہ جن محلّوں میں معصوم کلکاریاں گونجتی تھیں….
اپنے جوان باپوں کے غم میں اب وہاں سسکیاں گونجتی ہیں….
وہ جن گلیوں گھروں میں پھول بنٹتے تھے اب کفن بنٹتے ہیں…..
وہ جہاں زندگی بولتی تھی ھنستی تھی خوشیاں مناتی تھی….
اب وہاں خون بولتا ہے,روتا ہے,ڈھونڈتا ہے عیار قاتل کو…..
میرے خدایا میں مہاجروں کے خواب لکھوں کہ عزاب لکھوں….
وہ حسین چہرے وہ خواب آنکھیں,گھنی سایہ دار زلفیں…
اب ہم زندوں کے تعاقب میں آ رہی ہیں پکار رہی ہیں…..
کہ اے مسافرو راہ وفا کے,کیا تھا تم نے جو وعدہ ہم سے…..
کہ جہاں بھی جائینگے ساتھ ہو گے ہمارے نقش پاء پے ہو گے…..
کیا تم اپنے چہروں ان اپنی آنکھوں اور سایہ دار زلفوں کو بھول گئے ہو….
میرے خدایا میں مہاجروں کے خواب لکھوں کہ عزاب لکھوں…..
میں اب اپنے حسین چہروں,خواب آنکھوں گھنی زلفوں کے سنگ ہو چلا ہوں…….
میں ان قاتلوں کے تعاقب میں نکل پڑا ہوں جنہوں نے ان کو مار ڈالا…..
کیا تم میرا ساتھ دو گے,کیا تم میرے سنگ چلو گے……
راستہ بڑا کٹھن ہے,بڑا ہی خونی سفر ہے….
اسکی طوالت کا کوئ ڈر ہے نہ مرنے کی کوئ فکر ہے…..
بس شہیدوں کے نقش پاء پے چل کے منزل کی اک دھن ہے…..
کیا میرا ساتھ دو گے کیا میرے سنگ چلو گے…..
کیونکہ وہ ہزاروں حسین چہرے,وہ خواب آنکھیں,اور گھنی سایہ دار زلفیں…..
ہم سب کے تعاقب میں آرہی ہیں وہ وچن یاد دلا رہی ہیں…..
جو ہم نے ان سے کیا تھا اک دن,تبھی تو انہوں نے جان دی تھی….
ہماری منزل آسان کی تھی……
میرے خدایا میں مہاجروں کے خواب لکھوں کہ عزاب لکھوں……
وہ میرے چہرے وہ میری آنکھیں وہ میری گھنی سایہ دار زلفیں…..
اپنی ان گلیوں میں آچکی ہیں,ڈیرہ اپنا جما چکی ہیں……
اب گریباں پہ قاتل کے ھاتھ ہو گا,یزیدوں سے اک اک حساب ہو گا…..
جنہوں نے مخبریاں کری تھیں ان کی,سارے صادقوں کا حساب ہو گا…..
بچے گا شاید ہی اب تو کوئ لکھا جس کف پہ قاتل کا نام ہو گا…..
دھول اڑاتا اب کارواں ہو گا,پیچھے کتوں کی آہ و فغاں ہو گی…..
اب جو بھی ہو گا وطن ہو گا,اب جو بھی ہوگی زمیں ہو گی……
سبھی کا اس پر قیام ہوگا,محبتوں کا پیام ہوگا…..
جو بچے ہیں چہرے جو بچی ہیں آنکھیں اور گھنی سایہ دار زلفیں….
میں اب ان کے صرف خواب لکھوں,صرف خواب لکھوں……
میرے خدایا میں مہاجروں کے اب خواب لکھوں,صرف خواب لکھوں!!
بقلم,سہیل یوسف زئ-
(حق پرست کارکن)