💔کانٹوں کی نوک پر شبنم کا رقص جاری ہے💔
پاکستان کے مقتدر اداروں کی ھٹ دھرمی اور ”ہم سہی سب غلط“ کی فاشسٹ زہنیت نے آخر کار پاکستان کی تخلیق کار و سالمیت کی ضمانت مہاجر قوم کو دیوار سے لگا ہی دیا ہے


ابھی جب میں نے سوشل میڈیا پر ”مہاجر لبریشن موومنٹ“ نامی تنظیم کی کراچی کی شاہراہوں پر چاکنگ کی تصاویر دیکھیں اور سوشل میڈیا پر اس تنظیم کے ”آزادی“ کے نعروں سے پر پوسٹرز دیکھے تو یقین جانئیے مجھے کوئ حیرت نہی ہوئ۔
اگر ہم اردو بولنے والے مہاجر جنہیں بانیانِ پاکستان یا ان کی اولادوں کے نام سے بھی جانا پہچانا جاتا ہے کی تاریخ میں جائیں تو ہمیں یہ جاننے میں بلکل دیر نہی لگے گی کہ یہ مہاجر طبقہ جو پاکستان کا تخلیق کار بھی ہے ستر ٧٠ کی دھائ کے اختتام تک اپنے آپ کو ایک پاکستانی کے طور پر ہی متعارف کراتا رہا،یا یوں سمجھ لیجئے کہ پاکستان کے قیام کے اول دن سے یہی واحد طبقہ تھا جو اپنے آپ کو پاکستانی نا صرف سمجھتا رہا بلکہ پاکستان اور اس سے وابستہ ہر شے سے والہانہ لگاٶ و عشق کرتا رہا ہے،ان کے اس یکطرفہ عشق میں افواج پاکستان سمیت تمام مقتدر ادارے سرِ فہرست رہے،یہ وہ تاریخی حقیقت ہے جسے جھٹلانا دن اور رات کے ہونے کو جھٹلانے کے مترادف ہوگا۔
ہاں یہ یاد رہے کہ مہاجر قومییت اپنانے والے وارثانِ پاکستان اول دن سے نہی تو کم از کم لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد سے تو اس حقیقت سے آشنا ہو چکے تھے کہ ان کے ساتھ ”دو قومی نظرئے“ کی آڑ میں ھاتھ ہو گیا ہے،اب چونکہ عشقِ پاکستان ورثے میں ملا تھا لہاظہ معشوق کا ہر ظلم ہر زیادتی پھول بن کر سہتے رہے اور شبنم کے قطروں کی مانند کانٹوں کی نوک پر رقص کرتے رہے۔
استاد قمر جلالوی سائیکل کے پنکچر بناتے بناتے کہہ گئے،
چمن کو جب بھی لہو کی ضرورت پڑی
سب سے پہلے ہی گردن ہماری کٹی
پھر بھی کہتے ہیں مجھ سے اہلِ چمن
یہ چمن ہے ہمارا تمہارا نہی!
قدم قدم پر طنز و طعن کے نشتر ،اٹھتے بیٹھتے بے سروپا غلیظ القابات نے تخلیق کارانِ پاکستان یعنی اردو بولنے والے مہاجروں کا ہر جگہ ہر لمحے تعاقب کیا،لیکن مجال ہے ان عشاقوں کے ماتھے پے کبھی کوئ بل آیا یا عشق میں کوئ کمی۔
لٹتے پٹتے رہے،گالیاں سنتے رہے،خون بہاتے رہے،قربانیاں دیتے رہے اس امیدِ بیہم کے ساتھ کہ شائد آنے والے دن میرا عشق تسلیم ہو جائے،لیکن قربانیوں کی نا ختم ہونے والی سیاہ رات کسی سویرے کو جنم دینے سے قاصر رہی۔
ادھر سارا پاکستان سندھی،بلوچی،پنجابی،پختون،گلگتی،بلتستانی،سرائیکی،قومیتوں میں بنٹاں فخریہ پیشکش کے ساتھ نئ مملکتِ پاکستان کو بھرپور طور پر لوٹ رہا تھا اور خالقِ پاکستان تماشہ بنا کر رکھ دئے گئے تھے۔
گو کہ یہ بہت طویل داستان ہے اور اس پر کتابیں کی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں لہاظہ میں نے یہ مختصر تمہید اس لئے باندھی ہے کہ قارئین کو یہ سمجھ آ جائے کہ ستر کی دھائ کے اختتام تک مہاجر سب کچھ سمجھ جانے کے باوجود اپنے معشوق سے عشق نبھاتا رہا ۔
سائینس کا اصول ہے کہ ”ہر عمل کا ایک ردِ عمل“ لازمی ہوتا ہے یعنی،
“There is an equall and opposite reaction to every action”
اسی سائینسی اصول کی بنیاد پر بانی و قائید الطاف حسین کی ”آل پاکستان مہاجر اسٹوڈینٹس آرگنائیزیشن“ اور پھر اس طلبہ تنظیم کے بطن سے ”مہاجر قومی موومنٹ“ اور پھر ”متحدہ قومی موومنٹ“ نے جنم لیا-
ابھی کل ہی ایک ٹی وی ٹاک شو میں ایک حق گو پنجابی صحافی کو جب میں نے یہ دلیل دیتے سنا کہ پاکستان میں مہاجر سب سے آخر میں قوم پرست بنا اس سے قبل سارا پاکستان پہلے دن سے قومیتوں میں بنٹا ہوا تھا اور آج بھی ہے تو مجھے اپنے اوپر بیان کردہ حقائق تصدیق شدہ نظر آئے۔
مزکورہ پنجابی صحافی کے علاوہ بھی چند اور پنجابی صحافی اس سے ملتی جلتی گفتگو کرتے نظر آئینگے لیکن ان کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے پانی سر سے اوپر ہو چکا ہے اور پاکستان پر قابض فرعونی زہنییت اشرافیہ ١٩٧١ کی تاریخ دھرانے کا تحیہ کر چکی ہے،اس اشرافیہ کا کراچی بالخصوص مہاجروں کے حوالے سے اٹھایا جانے والا ہر اقدام، ہر رویہ چیخ چیخ کر خالقانِ پاکستان کو کہ رہا ہے کہ
اب نزع کا عالم ہے مجھ پر
تم اپنی محبت واپس لو
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے
تو بوجھ اتارا کرتے ہیں!
کراچی کے گلی محلوں میں ”مہاجر لبریشن موومنٹ“ اور ”آزادی“ کے ابھی زرا دبے دبے قدم اس بات کے غماز نظر آتے ہیں کہ گویا مہاجر قوم بحیثیتِ مجموعی اب معشوق کی مار کھا کھا کر عشق سے باہر نکلتی محسوس ہو رہی ہے اور بقول قمر جلالوی
بات ہوتی گلوں تک تو سہہ لیتے ہم
اب تو کانٹوں پر بھی حق ہمارا نہی
یا
بقول ایک اور شاعر کے،
میں نے خاکِ نشیمن کو بوسہ دیا
اور دل کو یہ کہہ کر سمجھا لیا
آشیانہ بنانا میرا کام تھا
کوئ بجلی گرائے تو میں کیا کروں!
قارئینِ گرامی مملکتِ پاکستان اس وقت بے لگام اشرافیہ کے ھاتھوں نزع کے عالم میں پنہچا دی گئ ہے اور ہر گزرتا دن و لمحہ خاکم بدہن اس کی طبعی عمر کے اختتام کی اندوہناک خبر سنا رہا ہے،
میں نے کل ہی سابق آرمی چیف پرویز مشرف کو یہ کہتے سنا کہ ”سندھ کے شہری علاقوں میں الطاف حسین کا وجود ایک حقیقت ہے اور جو اس سے انکاری ہے وہ بے وقوف اور شتر مرغ ہے“
لیکن انہی پرویز مشرف کا وہ تاریخی اور زو معنی جملہ قوم کو یاد رکھنا چاہئے کہ جب اقتدار چھوڑتے وقت انہوں نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا،
کہ ”پاکستان کا اللہ ہی حافظ“
لیکن میں عشق کا مارا پھر کہے جاتا ہوں کہ،
”بانیانِ پاکستان کا پاکستان زندہ باد“
(سہیل یوسف زئ)