پاکستان کی بھونچال انگیز ,عصبیئت,منافقت اور جابرانہ طرز حکمرانی سے لبریز سیاست وقت سے بھی زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ اپنے منطقی انجام کی طرف دوڑ لگاتی نظر آ رہی ہے,آپ چاہے کتنے ہی حب الوطنی کے غلاف کے غلاف اوڑھے ہوئے ہوں لیکن اس دفع کبوتر کی طرح آنکھیں موند لینے سے ہرگز کام نہی چلے گا,ہمیں کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرنا ہو گا,اور پاکستان کی تمام مقدس گائیوں کو اب بے نقاب کرنا ہو گا کہ جنہوں نے اپنا ہر گناہِ کبیرہ و صغیرہ پاکستان کے غریب و لاچار مظلوم طبقے کے سر تھونپا اور سب کے کانوں میں وہ صور پھونک دیا کہ اگر گویا ہوئے تو گویائ سے محروم کر دیئے جاؤ گے,بلکل اسی طرح کہ جیسے مولوی ملاؤں نے عزاب قبر کی تصویر کشی کر کے ایک عام مسلمان کو قرآن حکیم کی تلاوت اور مرنے والے کی بخشش تک محدود کر دیا,اگر کسی نے اس پر بات کی یا اسکی گہرائ میں جانے کی کوشش کی تو وہ گویا دائرہُ اسلام سے خارج-
اب وقت کروٹ بدل رہا ہے,انسان مارس پرکمند ڈال چکا ہے,دنیا برق رفتاری سے مواسلاتی جڑاؤ کے زریعے سکڑ کر ایک دوسرے سے لمہوں سے بھی کم وقت میں گلے مل رہی ہے,ایسے میں کسی بھی قوم کو بے وقوف بنانا یا کسی بھی قوم کا بےوقوف بننا کسی لطیفے سے کم نہ ہو گا-
یہ بات اب ایک زندہ حقیقت ہے کہ پاکستان کا سوا ستیا ناس کرنے میں صرف اور صرف پاکستان کی بے لگام ایجنسییوں کا ہی حصہ ہے اور ان ایجنسییوں کی طاقت اور بے لگام بقراطییت نے آج پاکستان کی کشتی کو تقریباً ڈبو ہی دیا ہے,اب طاقت کے نشے میں دھت یہ بقراط ڈوبتی اس کشتی سے کشتی کے اصل مالکان یعنی مہاجروں کو دھکیل کر اسکا بوجھ ہلکا کرنا چاہ رہے ہیں,مہاجروں سے بزور طاقت کہا جا رہا ہے کہ ہم پہ نزع کا عالم ہے اور تم اپنی محبت واپس لو,جبھی تو فوج کو ہر دور میں سلوٹ کرنے والے مہاجروں کو کراچی کی سڑکوں پر کاٹ کاٹ کر پھینکا جا رہا ہے, اْن کی نسل کشی کا ہر حربہ آزمایا جا رہا ہے, ان کی دو نسلوں کو تباہ و برباد کر کے اگلی نسل کو پاکستان سے نفرت پر آمادہ کرنے کا ہر طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے,گزشتہ سیتیس سالوں میں کراچی,حیدرآباد,سکھر,میرپورخاص,و لاڑکانہ کے گلی کوچے متعدد بار مہاجروں کے خون سے رنگین کیئے گئے اور شہروں کو لاشوں سے پانٹا گیا,اور آج کے دن تک یہ یزیدی عمل جاری و ساری ہے,نہ کوئ جے آئ ٹی نہ کوئ تفتیش,اور نہ کوئ میڈیائ بقراتوں کا پنڈال سجتا ہے,
دوسری طرف سندھ کے گاؤں دیہاتوں میں پاکستان و افواج پاکستان کو منہ بھر بھر کے مغلظات ہر سال بَکی جاتی ہیں,بلوچستان میں قائد اعظم کی تاریخی رہائش گاہ زمیں بوس کر دی جاتی ہے,بلوچستان میں ہی پاکستانی ترانہ پڑھنا اور قومی جھنڈا لہرانا مترادف گردن زدنی ہے,خیبر پختون خواہ میں افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے والے اور کالا باغ ڈیم بننے کی صورت میں پاکستان کے خاتمے کی کھلی دھمکی دینے والے آج حبالوطنی کے سرٹیفیکیٹ بانٹ رہے ہیں,اسی خیبر پختونخواہ میں فوجی جرنیلوں اور ان کے بچوں کو زبح کرکے علی الاعلان قبولنے والوں کے سہولتکار پورے طمطراق کے ساتھ حکمرانی کا انگوٹھا چوس رہے ہیں,اسی پاکستان کے بڑے بھائ پنجاب میں فوجی جرنیلوں کا پیشاب نکالنے کا فارمولہ بتانے والے پورے پروٹو کول کے ساتھ رہائش پزیر ہیں,اسی پنجاب میں ھندوستانی ٹینکوں پر بیٹھ کر آنے والا نام نہاد شیر آزاد گھوم رہا ہے,اسی پنجاب میں فوج کی اونچی ناک کے نیچے اسلامآباد کے پر فضا مقام پر آراستہ پیراستہ ایوان زیریں میں منہ بھر بھر کر فوج کو گالیاں دینے والا دفاع کا وزیر بنا بیٹھا ہے,نہ کسی کی غیرت جا گی,نہ کسی فوجی کی وردی میں مزکورہ بالا واقعات نے کسی بھی قسم کی غیرت و ہمیئیت کی آگ لگائ,وہ ساری غیر آئینی گالم گفتار قرانی تلاوت سمجھ کر فرزندی زمینی بھائ کی روٹی میں لپیٹ کر بنا ُ ڈکار ہضم کر لی گئ,اگر حاضمہ مانند پیچش خراب ہوا تو لاکھوں کی ریلیاں نکال کر فوج کو سلوٹ کرانے والے,اور دھشت گردوں سے جنگ کرنے کے لیئے لاکھوں حب الوطنی کے جزبے سے سرشار مہاجر نوجوان فوج کی جھولی میں بلا تامل ڈالنے کا اعلان کرنے والے الطاف حسین کے ان چند بیانات سے جو کہ نہ تو سیاق و سباق کے ساتھ پڑھے گئے اور نہ ہی اس قابل سمجھے گئے کہ بانیان پاکستان کی یہ اولاد آخر کس کرب کا شکار ہے,لاکھوں کڑوڑوں مہاجروں ہی نہی بلکہ سندھی,بلوچی,پختون,پنجابی,سرائکی,گلگتی کشمیری,غرض ہر رنگ نسل اور مزہب سے وابستہ مظلوموں کے متفقہ قائد کی ساری اچھائییاں ایک طرف اور اسکی غم و اندوہ میں ڈوبی گفتگو کے چند الفاظ کے بل بوتے پر اسکی پوری قوم کو صفحہ ُ ہستی سے مٹا دینے کی دھمکیاں اور ان پر بلا تامل عمل پیرائ ہر سیانے اور زی شعور فرد کو یہ سوچنے پر مجبور کر رہی ہے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے-
آیئے میں آپکو بتاتا ہوں,اپنے قائد سے اڑتی چڑیا کے پر گننے کا ہنر سیکھنے والے ان لاکھوں کارکنوں کی طرح میں آپ کو پورے وثوق سے بتانا چاہتا ہوں کہ خاکم بدہن پاکستان نہ تو بلوچی, نہ ہی پختون,نہ ہی سندھی و مہاجر اور نہ ہی عام غریب مظلوم پنجابی توڑنا چاہتا ہے, بلکہ اس ملک خداداد کو اگر توڑنے کا فیصلہ کسی نے کر لیا ہے تو وہ عظیم تر پنجاب منصوبے کے ابا جان شریف بردران اور ان کے ابا جان یعنی بوٹ والی سرکار کر چکے ہیں,مسلہُ یہ ہے کہ یہ حب الوطنی کے فیکٹری مالکان اپنی جینیٹک شاطرانہ خصوصیئت کی بنا ُ پر ہمیشہ کی طرح ملک توڑنے کا گناہ اپنے سر ہرگز نہی لینا چاہتے ہیں,اور اس کے لیئے انہوں نے,سب سے پہلے اصل سندھی قوم پرستوں,پھر پختون قوم پرستوں,اور ناراض بلوچ سرداروں اور سب سے آخر میں پاکستان کی شہ رگ مہاجروں کا کندھا استعمال کرنے کا مزموم منصوبہ بنایا,اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ کوئ اندھا بھی یہ بات جان سکتا ہے کہ ملک بچانے کے لیئے ظلم کا ہر دروازہ بند کرنا ہوتا ہے,نہ کہ جانتے بوجھتے ظلم و ستم کی تمام حدیں پار کرنے کا جتن اور وہ بھی ان لوگوں کے ساتھ کہ جن کی رگوں میں پاکستان خون بن کر دوڑ رہا ہو,جن کا ہر عمل پاکستان سے شروع اور اسی پر ختم ہوتا ہو,اب تو جواب انتہائ سادہ اور ہہت واضح ہے کہ جانتے بوجھتے بانیان پاکستان کی اولادوں اور ان کے قائد کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے اور انہیں تنہا و یکتہ کر کے شیخ مجیب ارحمان اور بنگالیوں کی طرح بزور طاقت ملک دشمن بنا کر پیش کیا جا رہا ہے,یہ سارا کھیل پوری منصوبہ بندی اور مضبوط اسکرپٹ اور چند ایشیائ عالمی طاقتوں کی آشیر باد کے ساتھ بھرپور انداز میں کھیلا جا رہا ہے,اس اسکرپٹ کا سب سے پر اصر اور فیصلہ کن لمحہ مہاجروں کے دل کے چین اور متفقہ راہنما جناب الطاف حسین کو راہ سے ہٹانا ہے,اور جس کے لیئے ایک اعصاب شکن جنگ کا ان کو سامنا ہے,جتنا میں اپنے قائد کو جانتا ہوں پوری زمہ داری سے کہ سکتا ہوں کہ میں نے الطاف حسین جیسے مضبوط ترین اعصاب جیسا ٹیپو سلطان کے بعد تاریخ میں کوئ نام نہی دیکھا,میں یہ بھی جانتا ہوں کہ بزدلی اور شکست انکی لغت میں ہے ہی نہی,میں یہ بھی جانتا ہوں کہ لاکھوں جاں نثار کارکن انکی ابروئے جنبش کے منتظر رہتے ہیں,اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ انتقام کا لفظ بھی ان سے بھاگتا ہے,وگرنہ سندھ ستاسی سے بیانوے کی دھائ میں ہی راکھ کا ڈھیر بن چکا ہوتا,صرف تیس ستمبر کا سانحہ حیدرآباد اور علیگڑھ قصبہ کا قتل عام ہی انتقام کی آگ بجھانے کا بہترین زریعہ بن جاتا,جتنا در گزر اور صبر کی سنت رسول (ص)پر عمل پیرا الطاف بھائ کو دیکھا ہے کسی راہنما کو نہی دیکھا,وگرنہ کون ہے بر صغیر کا ایسا راہنما کہ جس کے کاندھوں پر بیس ہزار شہید کارکنوں کا بوجھ ہو,جس کے کاندھے پر تقریباً اتنے ہی مہاجر ہمدرد شہیدوں کو بوجھ ہو,اور جو اسیروں,گمشدہ و جلاوطن ساتھیئوں کے غم کو اپنے کندھوں کا سہارا دیئے ہوئے ہو,جس کو اپنے شہید بھائ بھتیجے سے زیادہ اپنے پیارے شہید کارکنوں کا دکھ ہو,جو اپنی سلور جوبلی جلا وطنی کے کرب سے زیادہ اپنے جلا وطن اور وطن میں موجود ساتھیوں کی زندگیوں کی فکر اپنے جسم ناتواں پر سہ رہا ہو,جو سب کا غمگسار ہو اور خود اپنا غم کہنے سے قاصر ہو,ایسے مضبوط انسان کو نہ کوئ توڑ سکتا ہے نہ جھکا سکتا ہے-
میری اللہ سے دعا ہے کہ مہاجروں اور پاکستان کے مظلوموں کے اس ٹیپو سلطان کو اگر اب کسی میر صادق کا سامنا نہ ہوا تو لشکر الطاف منزل پر پنہچ کر ہی دم لیگا,وگرنہ مہاجروں و مظلوموں کی داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں!
تحریر:سہیل یوسف زئ-