امریکہ میں تحریک پہلے جیسی ہی ہے،وہی قائد وہی نظریہ وہی نظم و ضبط۔۔۔۔۔اگر کچھ لوگ تحریک کے لمبے سفر سے تھک کر بیٹھ گئے یا راستے جدا کر گئے تو یہ انکی نظریاتی کمزوری اور قائد پر غیر متزلزل اعتماد کا فقدان تھا،اس بات کو کسی طور اس طرح نہی لینا چاہئیے کہ امریکہ میں تحریک پہلے جیسی نہی رہی🤗💕
کچھ اضافی نوٹ👇
یہ بات بہت اچھی طرح ذہن نشین کر لیجئے کہ تحریکیں ہمیشہ نظریئے اور خالقِ نظریے کے دٙم سے چلتی ہیں نا کہ افرد کے جمِ غفیر سے،افراد آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں،پھر نئے لوگ تحریک سے جڑ جاتے ہیں،ان میں سے بھی کچھ چلے جاتے ہیں اور نئے لوگ آجاتے ہیں۔۔۔۔لیکن تحریک کا نظریاتی خالق وہ فرد ہوتا ہے جو ہمیشہ رہتا ہے۔۔۔۔خداناخواستہ وہ چلا جائے یا چھوڑ دے تو پھر تحریک کی اصل موت واقع ہوجاتی ہے۔
جدوجہد کی کٹھن اور ناہموار راہ پے چلنا “پلِ صراط” پر چلنے کی مانند ہوتا ہے،بے وفائیاں،دھوکےبازیاں،چالبازیاں،اپنوں پرایوں کی ناراضگیاں،شکوک و شبہات حتہٰ کے خون کے رشتوں کا ٹوٹ جانا بھی ایسی جدوجہد کا حصہ بن جاتا ہے۔
بس یوں سمجھ لیجئے،کہ خزاں کا موسم جب تناور ہرے بھرے درخت کے کمزور زرد پڑ جانے والے پتے جھاڑ دیتا ہے تو وہ زمیں پر آ پڑتے ہیں اور تیز ہوائوں کی زٙد میں آکر تناور درخت سے دور سڑک یا گلی کے کنارے ایک دوسرے سے جڑے ہوکر کچرے کی صورت جمع ہوجاتے ہیں اور پھر کچرا اٹھانے والی گاڑی میں لد کر کسی بڑے کچرا دان کی عمیق گہرائیوں میں گم ہوجاتے ہیں۔۔۔۔دوسری طرف تناور درخت کا استقبال بہار کا موسم کچھ یوں کرتا ہے کہ بچ جانے والے کمزور مگر درخت سے جڑے پتوں کو پھر سے ہرا اور بےشمار نئے پتوں سے اسے لاد دیتا ہے،اسی تناور درخت کی چھائوں سے راہ چلتے مسافر استفادہ کرتے ہیں۔
مہاجر جدوجہد کا تناور درخت موجود ہے بس بہار کا انتظار ہے،اور اس انتظار میں اس سے جڑے چند کمزور پتے ہرے بھرے ہونے کے منتظر ہیں۔۔۔۔
یہی حقیقت ہے باقی سب نظر کا دھوکہ ہے👁👍
✌🇧🇬✌