انہی پتھروں پے چل کر گر چل سکو تو چل لو میری جدوجہد کی راہ میں کوئ کہکشاں نہی!
تحریک کی ابتدا میں قائد تحریک نے جو جملہ بہت واضح طور پر بار بار دہرایا وہ یہ تھا کہ”یہ نسلوں کی بقاُ کی جدوجہد ہے اور یہ پر خطر کانٹوں سے بھری ہوئ ہوگی،اس جدوجہد میں تمہیں شائد کچھ نہ ملے لیکن تمہیں اپنے وقت مال حتہ کے جان تک کی قربانی دینی پڑ سکتی ہے،تم پر کوئ جبر زور زبردستی نہی اگر یہ حقائق جان کر میرا ساتھ دے سکتے ہو تو میرے ساتھ چلو“
پھر مجھ سمیت تحریک سے وابستہ ہر شخص گواہ ہے کہ اس پر خطر اور خوں آشام جدوجہد میں سینکڑوں کارکنان اور راہنما آج کے دن تک بے شمار مراعات اور اعلی ترین مناسب کے حقدار ٹہرے،اس سے بھی انکار نہی کہ ١٩٨٦ سے ١٩٩٦ تک کارکنان سے لیکر زمہ داران تک سب کی بے شمار قربانیاں بھی ہیں،لیکن ١٩٩٦ کے بعد سے ہماری اخلاق و معاشی للچاہٹ اور تنزلی کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا،کسی نے ماضی میں کیا خوب کہا تھا کہ دنیا میں تین چیزیں باعث فساد ہیں یعنی زَر،زمین اور زَن۔بس فرق یہ ہے کہ ہم بحیثییت مجموعی زَر اور زمین کا زیادہ شکار ہوئے اور پھر اسی چکر میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور سبقت لے جانے کی ایک ایسی دوڑ شروع ہوئ کہ اللہ فیالامان،ظاہر ہے جب سبقت کی دوڑ شروع ہو تو خون کے رشتے بھی شرما جا تے ہیں یہ تو پھر بھی تحریکی رشتے میں جڑے لوگ ہیں،نتیجہ سب کے سامنے ہے ٹکڑیوں اور گروپوں میں بنٹ گئے راہنما اور ان کے پیچھے مفادات کی ڈوری سے بندھے کارکنان کسی اور ہی منزل پر چل نکلے،قائد کی تعلیمات ایک طرف نوبت یہاں تک پنہچ گئ کہ اپنی اب تک کی مکمل زندگی تحریک اور قوم کی نظر کر دینے والے ٦٣ سالہ روحانی باپ سے لاتعلقی کے اظہار میں سبقت کی دوڑ شروع ہوگئ اور کچھ تو اس حد تک گر گئے کہ وہ گالیاں اور مغلظات سے نواز دیا جسکی جراُت بدترین مخالف بھی نہی کر پائے،غرض یہ کہ
دل کے پھپھولے جل اٹھے دل کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئ گھر کے چراغ سے!
اتنی طویل اور جاں گسل داستان ہے کہ زندگی نے اجازت دی تو کتاب لکھوں گا
اتنی تمہید باندھنے کا مقصد یہ تھا کہ جہاں مزکورہ بالا صورتحال تھی وہاں ایک طبقہ تحریک کا وہ بھی تھا جسے میں ہمیشہ شہہ رگ یعنی تحریک کے آج تک زندہ رہنے اور آگے بھی منزل پر پہنچنے کی امِِیدِ پر یقین گردانتا ہوں اور وہ ہیں تحریک کے شہدا،ان کے لواحقین،اسیر و گمشدہ ساتھی اور قائد تحریک الطاف حسین!
اس طویل تحریکی جدوجہد میں تحریک کے شہدا ان کے لواحقین اور خود بانی تحریک جناب الطاف حسین کی قربانیاں وہ مثال ہیں کہ جسکی دھول کو بھی شائد ہم نہ چھو سکیں
میں نے نائین زیرو پر وہ بھاری دبیز کتابچہ دیکھا ہے جس میں تحریک کے ایک ایک شہید کی مکمل تفصیل موجود ہے جس میں بانی و قائد تحریک الطاف حسین کے سگے بھائ بھتیجے،چئرمین عظیم احمد طارق،شہید انقلا و کنوینر ڈاکٹر عمران فاروق سمیت ہزاروں شہدا سنیہرے حروف کے ساتھ جگمگا رہے ہیں
ابھی کل کی سی بات لگتی ہے جب حیدرآباد میں ناصر آغائ کو شہید کیا گیا،شہزاد مرزا شہید کو کون بھلا سکتا ہے جو بھری جوانی میں سفید کرتے پاجامے میں ملبوس مہاجر شناخت کے ساتھ خون میں نہلائے گئے تھے،بھلا فہیم فاروقی،ان کے بھائ اور کزن کو کون بھلا سکتا ہے،بلدیہ ٹاٶن کے بہادر جری فاروق پٹنی کی خون آلود روح آج بھی نظروں کے سامنے متلاشی نگاہوں سے سامنے رہتی ہے،اور اس دھان پان س بے ضرر نعیم احمد کو کون بھلا سکتا ہے کہ جس کے سر کی قیمت کراچی کی ظالم پولیس نے اسے شہید کر کے وصولی،اور ہاں وہ حسین جوان ہینستا مسکراتا سب کی آنکھ کا تارا وقاص تو آج بھی اپنی گھن گرج کے ساتھ عزیزآباد کی فضاٶں میں محسوس ہوتا ہے،اراکین پارلیمینٹ منظر امام،رضا حیدر،آفتاب شہیداور دیگر کی خون میں نہائ روحوں کو رہتی دنیا تک نہی بھلایا جا سکتا
یہ تو چند نام تھے لیکن ایسے ہزاروں شہدائے حق ہیں جن کی آنکھ نکلی ھاتھ پیر ٹوٹی بے پناہ نا قابل بیان تشدد زدہ لاشیں ان کے پیاروں نے کسی گلی محلے سڑک یا جنگل سے جا کر اٹھائ اور بوجھل شکستہ دل کے ساتھ تحریک کے ترنگے پرچم میں اپنے ھاتھوں سے لپیٹ کر سفر آخرت پر روانہ کیا
دوسری طرف ہمارا رہبر و راہنما دل اور جان و نشان منزل الطاف حسین ہیں جو دو دھائیوں سے بھی زیادہ عرصے سے جلاوطنی کا کرب تو سہہ ہی رہے ہیں لیکن اپنوں کی طوطا چشمی اور احسان فراموشی و تحریک کے مقاصد سے فرار کا کرب بھی سہ رہے ہیں
ابھی ٩ دسمبر2017 کو جب یوم شہدا ہے تو ہم تقسیم در تقسیم کا شکار ہوئے اپنے شہدا کو کس منہ سے یاد کرینگے،چند سکوں اور اپنی اناٶں کی تسکین کی خاطر ظرف و ضمیر کا سودا کرنے والے اب شہدائے حق کو کیا جواب دینگے،ہمیں مجموعی طور پر اس کا جواب تلاش کرنا ہوگا کہ پل صراط کچھ مسافر(شہدا) تو اس پار اتر گئے لیکن جو پل صراط کو سر کرنے کے مرحلے میں ہیں وہ اسے کیسے سر پائینگے؟
اس یوم شہدا پر شہیدوں کے لہو کا پاس رکھتے ہوئے عہد کر لیں کہ برگد کا مضبوط سایہ دار درخت قائد تحریک کی صورت آج بھی بانہیں پھہلائے ہمیں اپنی آغوش میں لئے بیٹھا ہے بس زرا اسکی چھاٶں کا احساس کریں محسوس کریں
مت بھولیں کہ ہزاروں شہدا کی روحیں اور اسیر و گمشدہ ساتھیوں کی آہیں ہمارے تعاقب میں ہیں اور یہ وہ نہ نظر آنے والی طاقت ہے جسے کوئ اشرافیہ کوئ ظلم کوئ ستم کوئ کوتاہ نظری اپنا کام دکھانے سے نہی روک سکتی،سوچئے اس سے قبل کے دیر ہو جائے !
#شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے!
#زندہ رہے نظریہ_ زندہ رہے الطاف!
(تحریر سہیل یوسف زئ)