بہت سال پہلے میں سوات کی بلند و بالا پہاڑوں میں گھری حسین ترین وادی گیا تھا,ایک دن صبح سو کر اٹھا اور باہر جھانکا تو سورج گویا سوا نیزے پر تھا,سوات جیسی حسین وادی میں جھلسا دینے والی گرمی,باہر نکلنے کی ہمت ہی نہ پڑی,کرسی ڈال کر کھڑکی کے سامنے بیٹھ گیا,میری چشمِ نگاہ کے سامنے ہی موسم نے کرونٹ بدلی اور شدید حبس کی کیفییت اور پھر گہرے سیاہ بادل نہ جانے کہاں کا سفر طے کرکے آنِ واحد میں آ پنہچے,تیز ھواؤں نے حبس کا سینہ چیرا اور جھکڑ چلنے شروع ہو گئے,باہر پڑی ہر شے ہوا کے رحم و کرم پر اڑ رہی تھی,پھر کچھ ہی دیر میں ایسا لگا کہ گرد و غبار کا ایک طوفان برپا ہو گیا ہے,تا حدِ نگاہ گرد و غبار کے سوا کچھ دکھائ نہ دیتا تھا-
کوئ ایک گھنٹے کی اسی کیفییت کے بعد کالے سیاہ بادل غرانے لگے,سیاہ بپھرے بادل آسمان پر جوں ہی آپس میں ٹکراتے ایک برقی لپک دن میں ہوئے اندھیرے کو اجالے میں بدل دیتی,بادلوں کی ان اٹھکھیلیوں سے پیدا ہونے والے دھماکوں نے ماحول کو انتہائ پر اسرار بنا دیا تھا,پھر اچانک طوفانی بارش اور اسکے ساتھ کانچ کی گولیوں کے دگنا جسامت کے اولوں نے تو خوف میں قیامت بھر دی,گھر میں ہونے کے باوجود خوف میں مجھے کھڑکیاں بند کرنی پڑ گئیں اور وقت سے پہلے سرِ شام میں چادر تان کے انٹا غفیل ہو گیا…. زور دار دھماکوں سے رات کے کئ پہر آنکھ کھلتی رہی اور پھر جب میری آنکھ کھلی تو باہر کا منظر نا قابلِ یقین تھا,ٹھنڈی اور دلگداز بادِ صبا,سورج کی ابھرتی کرنیں اس قدر نرم کے گویا راحتِ جاں, ہر شے دھلی دھلی اور شفاف,میں بے اختیار چیخ اٹھا..واہ اے مالکِ جِن و انس کیا تیری شان ہے,اتنے بڑے طوفان و بادو باراں کے بعد اتنی حسین خوبصورت دل لبھانے والی صبح تو ہی تخلیق کر سکتا ہے!
آج اس بات کو تقریباً بیس برس بیت گئے,اور میں اسکا حاصل حصول یہ نکال پایا قدرت کا نظام ہے کہ ہر طوفان کے سینے میں ایک نیا سندر سویرا ضرور چھپا ہوتا ہے-
متحدہ قومی موومنٹ اور اسکے بانی قائد الطاف حسین کی جدوجہد کا اگر اس طوفان سے موازنہ کریں تو جواب بہت مثبت اور حوصلہ افزا ملے گا-
محترم الطاف حسین کی جدوجہد اور وہ خود بھی گزشتہ تین دہائیوں سے ایسے ہی طوفانوں سے دوچار ہیں,ان کا نظریہ “حقیقت پسندی و عملیت پسندی” ایک سمندر ہے جو اپنے اندر نہ جانے کتنے مسائل کا حل اور کتنے ہی فرعونوں کی موت کا پیغام لئے تین دہائیوں کا سفر طے کر چکا ہے-
اس جاں گسل سفر میں الطاف حسین اور ان کے وفادار ساتھیوں نے آگ و خون کے نہ جانے کتنے دریا عبور کئے,اپنے دل و جگر عظیم طارق و عمران فاروق جیسے گوہرِ نایاب کھوئے,تو اپنے خون کے رشتے عارف حسین و ناصر حسین کی قربانی دی,تو دوسری طرف اپنے خون کے رشتوں سے بھی زیادہ عزیز اپنے دلوں جاں کے انتہائ قریب ساتھیوں کی شہادتوں کا دکھ بھی جھیلا….
کبھی قصبہ علیگڑھ میں تڑپتے لاشے, تو کبھی حیدرآباد کی خون میں نہائ شام دیکھی,اسیری کے کربناک دکھ خود جھیلے تو کبھی ساتھیوں کی جیلوں میں ازیت ناک زندگی کی خبر پائ,لاپتہ ساتھیوں کی بلکتی اولادیں,سسکتی بیویایاں,اور بےچارگی کی تصویر والدین کی آہیں کلیجہ پھاڑتی رہیں……دیارِ غیر میں جلا وطنی کا کرب,اور تمام تر ریاستی طاقت کے بل بوتے پر الطاف حسین کی کردار کشی کے نا رکنے والے سلسلے بھی الطاف حسین کے پائے استقلال میں لغزش نہ لا سکے….
تین دھائیوں سے صرف گھنٹے دو گھنٹے کی نیند لینے والے الطاف حسین ہر لمحہ ہر گھڑی وقت کی نبض پر ھاتھ رکھ کر چل رہے ہیں,با خبروں سے زیادہ با خبر,دنیا کی سیاست و چالبازیوں پر عقابی نگاہ رکھنے والے الطاف حسین آج بھی پاکستان کے مظلوموں کی آنکھ کا تارا اور اشرافیہُ پاکستان کی آنکھ کا تنکا ہیں-
الطاف حسین نے یوں تو بے حساب تاریخی جملے کہے لیکن ایکبار انہوں نے کہا تھا کہ”روئے زمین پر موجود کوئ طاقت ایم کیو ایم کو ختم نہی کر سکتی,ہاں اگر کوئ نقصان پہنچا تو اپنوں سے پنہچے گا” الطاف حسین کے یہ تاریخی جملے انکی جہاں دیدگی اور دور بین نگاہی کا نا قابل تردید ثبوت ہیں کہ جب 1992 میں دل کے قریب رہنے والوں نے وفا کا سودا کیا اور اب 2016 وہ جنہیں عزت و توقیر الطاف حسین کی بدولت اللہ نے بخشی سیانے کوّے ثابت ہوئے……لیکن الطاف حسین کا تدبر,قائیدانہ صلاحییت,مفکرانہ سوچ,اندازِ تبلیغ,تحریر و تقریر کی طاقت و شعلہ بیانی, اور کارکنوں سے اندازِ محبت کوئ خرید نہی سکتا….یہ تو اللہ تعالیٰ اپنے ان بندوں کو پیدائشی طور پر تفویض کرتا ہے کہ جنہیں قوموں کی نجات کا زریعہ بنا کر دنیا میں بھیجتا ہے…
ان بنیادوں اور خصوصیات پر اگر کوئ قوم کوئ طبقہ الطاف حسین کو “بابائے قوم”پکارتا ہے تو وہ اسکے مستحق ہیں- ان کا عمل و کردار شفاف ہے,وہ اس موجودہ دنیا کے واحد منفرد راہنما ہیں کہ جو کسی بھی سطح کے عہدے کو لینے سے ہمیشہ انکاری رہے,ان کا دامن ہر طرح کی کرپشن سے پاک رہا ہے,وہ اس دنیا کے سب سے زیادہ موضوع بحث رہنے والے راہنما ہیں,وہ واحد رہنما ہیں کہ جن کی کردارکشی کا کوئ حربہ آزمانے سے رہ نہی گیا اور منفرد مقام ہے ان کا کہ اس کے باوجود عوام و کارکنان کا اعتماد جو تیس سال قبل قائم ہوا تھا آج بھی ویسے ہی قائم ہے….
الطاف حسین اس جدید دنیا کی تاریخ کے وہ واحد منفرد راہنما ہیں کہ جو ہزاروں میل دور کی جلاوطنی کے باوجود لاکھوں کے ان گنت عوامی اجتماعات سے گھنٹوں کے خطابات کا رکارڈ قائم کر چکے ہیں…اور اب پاکستان میں تقریر و تصویر کی پابندی کے باجود لاکھوں کے اجتماعات سے برقی رسائ کے زریعے ہوا کے دوش پر خطابات کر کے اپنی تحریک اور جدوجہد کو زندہ رکھے ہوئے ہیں-
یقین جانئے الطاف حسین آج کی دنیا کا سقراط ہے,آج کے دور کا ٹیپو ہے,سرسید کی اولاد ہے,قائدِ اعظم و لیاقت علی خان کا وارث ہے….یقین کر لیں تین عشروں سے جس طوفان میں گھرے الطاف حسین اور ان کے جاں نثار ساتھی ھچکولے کھا رہے ہیں اس طوفان سے ایک نیا خوبصورت سویرا جنم لینے کو ہے,ایک ایسا سویرا جس کی بانہوں میں امن و سکون ہوگا,انصاف ہوگا,تعلیم ہوگی,صحت مند زندگی ہو گی,قابلیت ہو گی,نہ کوئ گورا ہو گا نہ کالا,نہ امیر ہوگا نہ غریب,نہ لسانی تعصب ہوگا, نہ مزہبی تعصب….بس اللہ اور اسکے رسول(ص) کے فرمان “انسانیت کی خدمت سب سے بڑی عبادت ہے” پر عمل ہو گا….اور
ایک ہی صف میں کھڑے ہونگے محمود و ایاذ!
بس زرا انتظار,اتحاد و یکجہتی کے ساتھ…….اور پھر….
ملینگی ہم کو بھی اپنے نصیب کی خوشیاں اِک دن!
بابائے قوم الطاف حسین کی قیادت ہوگی اور قائدِ اعظم کا پاکستان اصل وارثوں کے ھاتھ میں ہوگا,انشا ُ اللہ!
نصرّمِناللہ فتحً قریب!